Mritu ke baad Kyaa Jeevan Hai ?
April 12, 2016Weekly Dars-e-Qur’an (Gents) Sunday, 17th of April 2016
April 12, 2016موت کے بعد کیا زندگی ہے؟
ایک ایک ذرہ (ذرہ) جس پر انسان کی باتوں اور كامو کے چهن قیمت ہوں گے اپنی داستان خود سنائے گا. خود انسان کے ہاتھ، پاو، كھ، کی زبان اور سارے گواہی دیں گے کہ ان سے اس نے کس طرح کام لیا. پھر اس تپھسيل اور تفصیلات پر وہ سب سے بڑا حاکم پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا کہ کون کتنے ثواب کے قابل ہیں اور کون کتنی سزا کا یہ ثواب اور یہ سزا دونوں چیزیں اتنے بڑے پیمانے پر ہوگی، جس کا كور اندازہ موجودہ دنیا کے محدود پیمانے کے لحاظ سے نہیں کیا جا سکتا. وه وقت اور جگہ کے مےار (پیمائش-سزا) کچھ اور ہوں گے. وه کی اقدار اور پیمائش کچھ اور ہوں گے. وه کے قدرت کا قانون کسی اور ہی قسم کے ہوں گے. انسان کی جن نیکیوں اور بھلائیوں سے دنیا ہزاروں سال تک متاثر رہی ہیں، وه وہ ان نیکیوں کا بھرپور بدلہ وسول کر سکے گا، بغیر اس کے کہ موت، بیماری، بڑھاپا اور اس راھ اور آرام کا سلسلہ توڑ سکیں. اور انسان کی جن براريو کے اثرات دنیا میں ہزار سال تک اور بےشمار انسانوں تک پھےستے رہ ہیں، وہ ان کی پوری سزا بھگتےگا بغیر اس کے کہ موت اور بیہوشی آ کر اسے تکلیف سے بچا سکے
مرنے کے بعد كور دوسری زندگی ہیں یا نہیں؟
اور ہیں تو کیسی ہے؟
یہ سوال حقیقت میں ہمارے علم کی پہچ سے دور ہیں. اس لئے کہ ہماری پاس وہ كھے نہیں جن سے ہم موت کی سرحد کے اس پار جھك کر دیکھ سکیں کہ وه کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں. ہمارے پاس وہ کان نہیں، جن سے ہم ادھر کی كور آواز سن سکیں.
ہم كور ایسی مشین بھی نہیں رکھتے جس کے ذریعہ یہ یقین کے ساتھ معلوم کیا جا سکے کہ ادھر کچھ ہیں یا نہیں. اس لئے جہاں پر تک سائنس کا تعلق ہیں، یہ سوال اس کام حد سے بالکل باہر ہیں. جو آدمی سائنس کا نام لے کر کہتا ہے کہ مرنے کے بعد كور زندگی نہیں ہیں، وہ بالکل ایک غیر سانٹپھك بات کہتا ہیں. سائنس کی نظر سے نہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ كور زندگی ہیں اور نہ یہ کہ كور زندگی نہیں ہیں. جب تک ہمیں علم کا كور یقینی اور پکی ذریعہ حاصل نہیں ہوتا، کم از کم اس وقت تک تو صحیح سانٹپھك بات یہی ہو سکتی ہے کہ ہم مرنے کے بعد زندگی کا نہ انکار کریں، نہ اقرار.
مگر کیا عملی اور عملی زندگی میں ہم اس سانٹپھك طرح کو ادا کر سکتے ہیں؟ شاید نہیں، بلکہ اصل میں نہیں. اكلي حیثیت سے تو یہ ممکن ہے کہ جب ایک چیز کو جاننے کے جريے اور ذرائع ہمارے پاس نہ ہو تو اس سلسلے میں ہم انکار اور اقرار دونوں سے بچے، لیکن جب کسی چیز کا تعلق ہماری عملی اور عملی زندگی سے ہو تو ہمارے لئے اس سوا كور راستہ نہیں رہتا کہ یا تو اس کے انکار پر ان کے کام کرنے کے طریقوں کو قائم کریں یا اقرار میں.
مثال کے طور پر ایک شخص ہیں جسكو آپ نہیں جانتے، اگر اس کے آپ کو كور معاملہ نہ کرنا ہو تو آپ کے لئے یہ ممکن ہے کہ اس رماندار ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں كور فیصلہ نہ کریں. لیکن جب آپ کو اس معاملہ کرنا ہو تو آپ مجبور ہیں کہ یا تو اسے رماندار سمجھ کر معاملہ یا بےرمان سمجھ کر. تم نے اپنے دل میں ضرور یہ سوچ سکتے ہیں کہ جب تک اس کا رماندار ہونا ثابت نہ ہو جائے اس وقت ہم شک کے ساتھ معاملہ کریں گے. لیکن اس رمانداري پر شک کرتے ہوئے جو معاملہ آپ اس سے کریں گے عملی طور پر اس کی صورت وہی تو ہوگی جو اس رمانداري کا انکار کی شکل میں ہو سکتی تھی. چنانچہ حقیقت میں انکار اور اقرار کے درمیان شک کی حالت صرف دل اور دماغ ہی میں ہو سکتی ہیں. عملی طور طریقہ کبھی شک پر قائم نہیں ہو سکتا، اس لئے تو انکار یا اقرار ہر حال میں ضروری ہیں.
یہ بات تھوڑے سے غور و فکر سے آپ سمجھ میں آ سکتی ہیں کہ مرنے کے بعد زندگی کا سوال صرف ایک پھلسپھيانا (فلسفیانہ) سوال نہیں ہیں، بلکہ ہماری عملی زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلقات ہیں. ہمارا اكھلاكي اور اخلاقی رویے کیا ہوگا، واقعی یہ اسی سوال پر منحصر ہیں.
اگر میرا یہ خیال ہو کہ زندگی جو کچھ ہیں صرف یہی دنیا کی زندگی اور اس کے بعد كور دوسری زندگی نہیں ہیں تو میرا اكھلاكي طریقے اور اخلاقی رویے ایک خاص طرح کا ہوگا. اگر مے یہ خیال رکھتا هوو کہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی بھی ہیں، جس میں مجھے اپنی موجودہ زندگی کا حساب دینا ہوگا اور وه میرا اچھا یا برا انجام میرے يه کے اچھے یا برے اعمال کے سبب بن جائے گا تو اس صورت میں یقینا میرا اكھلاكي رویہ اور اخلاقی رویے بالکل ایک دوسری ہی طرح کا ہوگا، جو پہلے سے بالکل مختلف ہوگا.
اس کی مثال یو سمجھئے جیسے ایک شخص یہ سمجھتے ہوئے سفر کر رہا ہے کہ اسے بس یہاں سے بمبر تک جانا، اور بمبر پهچكر نہ صرف یہ کہ اس کا سفر ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا، بلکہ وه وہ پولیس اور عدالت اور ہر اس طاقت کی گرفت سے باہر ہو جائے گا، جو اس سے کسی قسم کی پوچھ-تاچھ کر سکتی ہو. اس کے برعکس ایک دوسرا شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہاں سے بمبر تک تو اس کے سفر کی صرف یہ کہ اس کا سفر ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا، بلکہ وه پولیس اور عدالت اور ہر اس طاقت کی گرفت سے باہر ہو جائے گا، جو اس سے کسی قسم کی پوچھ -تاچھ کر سکتی ہو. اس کے برعکس ایک دوسرا شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہاں سے بمبر تک تو اس کے سفر کی صرف ایک ہی منزل ہیں. اس کے بعد اسے سمندر پار ایک ایسے ملک میں جائیں گے جہاں پر کا بادشاہ وہی ہیں جو ہندوستان کا بادشاہ ہیں اور اس بادشاہ کے دفتر میں میرے تمام کاموں کا خفیہ ریکارڈ موجود ہیں جو میں نے ہندوستان میں کئے ہیں، اور وه میرے ریکارڈ جچكر فیصلہ کیا جائے گا کہ میں اپنے کاموں کے لحاظ سے کس درجے کے قابل ہو. آپ آسانی سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان دونوں افراد کی ويواهار اور عمل کتنا زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے سے مختلف ہو جائے گا.
پہلا آدمی یہاں سے بمبر تک کے سفر کی تیاری کرے گا لیکن دوسرے کی تیاری کے بعد کی لمبی مجلو کے لئے بھی ہوگی. پہلا آدمی یہ سمجھے گا کہ نفع یا نقصان جو کچھ بھی ہیں، بمبر پهوچنے تک ہیں، آگے کچھ نہیں اور دوسرا یہ خیال کرے گا کہ اصل نفع یا نقصان سفر کے پہلے مرحلے (مرحلہ) میں نہیں ہیں، بلکہ آخری مرحلے میں ہیں. پہلا آدمی اپنے اعمال کے صرف انہی نتيجو پر نظر رکھے گا. جو بمبر تک کے سفر میں نکل سکتے ہیں، لیکن دوسرے آدمی کی نگاہ ان نتائج پر ہوگی جو سمندر پار دوسرے ملک میں پهچكر سامنے اےگے. ظاہر ہے کہ ان دونوں افراد کے رویے کا یہ فرق ان کی رائے کا براہ راست اور کھلے نتیجہ ہیں جو وہ اپنے سفر کے بارے میں رکھتے ہیں. ٹھیک اسی طرح ہماری اكھلاكي زندگی میں بھی وہ عقیدہ یا تاثر پھےسلاكن اثر رکھتی ہیں، جو ہم مرنے کے بعد کی زندگی کے بارے میں رکھتے ہیں. عمل کے میدان میں جو قدم بھی ہم اٹھاےگے اس کی سمت کا تعین اس بات پر منحصر کرے گا کہ کیا ہم اس زندگی کو پہلی اور آخری زندگی سمجھ کر کام کر رہے ہیں، یا کسی بعد کی زندگی اور اس کے نتيجو کو سامنے رکھتے ہیں. پہلی صورت میں اس کی سمت بالکل دوسری ہوگی.
اس سے معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد کی زندگی کا سوال ایک اكلي اور پھلسپھيانا سوال نہیں ہیں، بلکہ یہ ہماری عملی زندگی کا سوال ہیں. اور جب بات یہ ہے تو ہمارے لئے اس معاملے میں شک اور سنکوچ کی حالت میں رہنے کا كور موقع نہیں. شک اور سنکوچ کے ساتھ جو پالیسی اور رویہ ہم اس زندگی میں اپناےگے وہ لازمی طور پر انکار ہی کی پالیسی جیسا ہوگا، اس سے مختلف نہیں. لہذا ہم بہرحال اس بات کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ کیا مرنے کے بعد كور اور زندگی ہیں یا نہیں اگر سائنس اس سلسلے میں ہماری مدد نہیں کرتی تو ہمیں اكلي اور دانشورانہ دلیلوں سے مدد لینی چاہئے.
اچھا، تو اكلي دلیلوں کے لئے ہمارے پاس کیا کچھ چیزیں ہیں؟ ہمارے سامنے ایک تو خود انسان ہیں اور دوسری چیز ہیں دنیا کی یہ بہت بڑا نظام. ہم انسان کو اس دنیا کے نظام (نجامے کائنات) کے اندر رکھ کر دیکھیں گے کہ جو کچھ چیزیں انسان کے اندر پار جاتی ہیں، کیا اس کی ساری مگے دنیا کی اس موجودہ نظام میں پوری ہو جاتی ہیں یا كور چیز ایسی بچی رہ جاتی ہیں جس کے لئے کسی دوسری طرح کا اہتمام ضرورت ہو. دیکھئے، انسان ایک تو جسم رکھتا ہیں جو بہت سی دھاتیں، كشارو، پانی اور گےسو سے بنا بنا ہو. اس کے مقابلے میں کائنات کے اندر بھی مٹی، پتھر، دھاتو، نمک، گےسے، پانی اور اسی طرح کی دوسری چیزیں موجود ہیں. ان چیزوں موجود ہیں. ان چیزوں کو کام کرنے کے لیے جن نيمو اور قوانین کی ضرورت ہے، وہ تمام کائنات کے اندر كررياشيل ہیں. اور جس طرح وہ باہر کے ماحول میں پہاڑوں، دریاؤں اور ہواؤں کو اپنے حصے کا کام مکمل کرنے کا موقع دے رہے ہیں، اسی طرح انسانی جسم کو بھی ان قوانین کے تحت کام کرنے کا موقع حاصل ہیں.
پھر انسان ایک ایسا وجود ہیں جو آس پاس کی چیزوں سے خوراک لے کر بڑھتا اور پروان چڑھتا ہے. اسی طرح کے درخت پودوں اور گھاس کھٹیا کائنات میں بھي موجود ہیں اور وہ قوانین بھی يه پائے جاتے ہیں جو بڑھتے ہوئے اور پروان چڑھنےوالے جسموں کے لئے ضروری ہیں.
پھر انسان ایک زندہ وجود ہیں جو اپنے ارادے سے حرکت کرتا ہیں، آپ کی خوراک خود اپنی کوششوں سے حاصل کرتا ہیں. اپنی حفاظت آپ کرتا ہیں اور اپنی ذات اور اولاد کو باقی رکھنے کا انتظام ہیں. کائنات میں اس طرح کے دوسرے بہت از مخلوق بھی موجود ہیں. زمین پر پانی اور ہوا میں بے شمار مخلوق پائے جاتے ہیں اور وہ قوانین بھی پورے-پورے طور پر يه اپنا کام کر رہے ہیں جو ان جانداروں کے سارے کاموں پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے کافی ہیں.
ان سب سے اوپر انسان ایک اور قسم کا وجود بھی رکھتا ہے جسے ہم اكھلاكي وجود (اخلاقی وجود) کہتے ہیں. انسان کے اندر بھلار اور برار کا احساس ہیں یہاں تک کہ اگر اور برے کی شناخت ہیں، بھلار اور برار کرنے کی طاقت ہیں اور اس کی فطرت یہ چاہتی ہیں کہ بھلار کا اچھا اور برار کا برا نتیجہ سمانے آئے.
انسان ظلم اور انصاف، سچچار اور جھوٹ، سچ اور جھوٹ، رحم اور جفاکشی، احسان اور احسان-پھراموشي، خیرات اور کنجوسی، امانت اور كھيانت اور ایسے ہی مختلف اخلاقی خصوصیات کے درمیان فرق کرتا ہیں. یہ خصوصیات عملی طور پر اس کی زندگی میں پائے جاتے ہیں اور یہ صرف خیالی اور غیر حقیقی چیزیں نہیں ہیں، بلکہ عملی طور پر ان کے اثرات انسانی تہذیب اور ثقافت پر پڑتے ہیں. اس لئے انسان کی فطرت جسكو لے کر وہ پیدا ہوا ہیں، یہ چاہتی ہے کہ جس طرح اس کاموں کی جسمانی نتائج سامنے آتے ہیں، اسی طرح اخلاقی نتائج بھی سامنے اے. لیکن دنیا کی شریعت پر گہری نگاہ ڈال کر دیکھئے، کیا اس نظام میں انسانی اعمال کے اخلاقی نتائج پوری طرح ظاہر ہو سکتے ہیں؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہو کہ يه اس کا امکان نہیں ہیں، اس لئے کہ يه کم سے ہماری معلومات کی حد كور دوسری ایسی مخلوق نہیں پار جاتا جو اكھلاكي وجود رکھتی ہو. دنیا کی ساری انتظام جسمانی قوانین کے تحت چل رہی ہیں، اكھلاكي قانون کسی طرح کام کرتا نظر نہیں آتا. يه روپے میں وزن اور قیمت ہیں مگر سچچار میں نہ وزن ہیں نہ قیمت. يه عام کی گٹھلی سے ہمیشہ عام پیدا ہوتا ہیں مگر حق اور سچائی کا بیج بونےوالے پر کبھی پھولوں کی بارش ہوتی ہیں اور کبھی، بلکہ اکثر، جوتیوں کی. يه جسمانی عناصر کے لئے یقینی طے شدہ قوانین ہیں، جن کے مطابق ہمیشہ یقینی نتائج نکلتے ہیں مگر اخلاقی عناصر کے لئے كور یقینی قانون نہیں ہیں کہ ان کے كاريشايل ہونے سے ہمیشہ یقینی نتیجہ نکل سکے. جسمانی قانون کے سرگرم ہونے کی وجہ سے اخلاقی نتائج کبھی تو نکل ہی نہیں سکتے، کبھی نکلتے ہیں تو صرف اس حد تک جس اجازت جسمانی قانون دیں دیں، اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اخلاق ایک کام سے ایک خاص نتیجہ نکلنے کا تقاضہ کرتا ہیں مگر جسمانی قانون کی دكھلنداجي سے نتیجہ بالکل الٹا نکل آتا ہیں. انسان نے خود اپنی ثقافتی اور سیاسی نظام کے ذریعے سے تھوڑی سی کوشش اس کی ہیں کہ انسانی اعمال کے اكھلاكي نتائج ایک طے شدہ جابتے کے مطابق سامنے آ سکیں. مگر یہ کوشش بہت محدود پیمانے پر ہیں اور انتہائی ادھوری ہیں. ایک طرف جسمانی قانون اس کو محدود اور نامکمل بناتے ہیں اور دوسری طرف انسان کی اپنی بہت سی كمجوري اس انتظام کی غلطیاں اور زیادہ بڑھا دیتی ہے.
مے اپنی بات کو کچھ مثالوں سے واضح كروگا. دیکھئے، ایک شخص اگر کسی دوسرے شخص کا دشمن ہو اور اس کے گھر میں آگ لگا دے تو اس کا گھر جل جائے گا. یہ اس کرم کا جسمانی نتیجہ ہیں. اس کا اكھلاكي نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ اس شخص کو اتنی ہی سزا ملے، جتنا اس نے ایک خاندان کو نقصان پہونچا یا ہیں. مگر اس نتیجے کا ظاہر ہونا اس بات پر انحصار کرتا ہے کہ آگ لگانےوالے سراگ ملے. وہ پولیس کے ہاتھ آ سکے، اس پر جرم ثابت ہو، عدالت مکمل طور اندازہ کر سکے کہ آگ لگنے سے اس خاندان کو اور اس کی آئندہ نسلو کو ٹھیک ٹھیک کتنا نقصان پہونچا ہیں. اور پھر انصاف کے ساتھ اس مجرم کو اتنی ہی سجا़ دیں. اگر ان شرطوں میں سے كور شرط بھی پوری نہ ہو تو اكھلاكي نتیجہ یا تو بالکل ہی ظاہر نہ ہوگا یا اس کا صرف ایک تھوڑا سا حصہ ظاہر ہو کر رہ جائے گا. اور یہ بھی ممکن ہیں کہ اپنے دشمن کو برباد کر کے وہ شخص دنیا میں مزے سے پھولتا-پھلتا رہے.
اس سے بڑے پیمانے پر ایک اور مثال لیجئے. کچھ لوگ اپنی قوم میں اثر پیدا کر لیتے ہیں اور ساری قوم ان کہے پر چلنے لگتی ہیں. اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر وہ لوگو میں نسل پرست کو بھڑکا دیتے ہیں اور ان میں ملک فتح کرتے کا احساس پیدا کر دیتے ہیں. پھر وہ ارد گرد کی قوموں اور دےشو سے لڑار چھیڑ دیتے ہیں. اس طرح نغمے انسانوں کی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں. ملک کے ملک تباہ کر ڈالتے ہیں. کروڑوں انسانوں کو پست اور ذلیل زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور انسانی تاریخ پر ان كاريوايو کا اتنا زبردست اثر پڑتا ہیں جس کا سلسلہ آئندہ سینکڑوں سال تک کتنی ہی پيڑھيو اور نسلی میں فیصلہ کرے گا. کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان چند لوگو نے جو جرم کیا ہیں، اس کی مناسب اور منصفانہ سزا ان کو کبھی اس دنیا میں حاصل کر سکتے ہیں. ظاہر ہے کہ اگر بوٹي بھی نوچ ڈالی جائے، اگر ان کو زندہ ڈالا جائے، یا كور ایسی سزا دی جائے جو انسان کے بس میں ہیں، تب بھی کسی طرح وہ اس نقصان کے برابر سزا نہیں پا سکتے جو انہوں کروڑوں انسانوں کو اور ان کی آئندہ بےشمار نسلو کو پہونچا یا ہیں. موجودہ دنیا کا نظام جن جسمانی كانونو پر چل رہی ہیں، ان کے تحت کسی طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے جرم کے برابر سزا پا سکیں
اسی طرح ان بھلے اور نیک انسانوں کو جمع، جنہوں نے انسانی ذات کو حق اور سچچار کی تعلیم دی اور ہدایت کی روشنی دكھار، جن کی وجہ سے بے شمار انسانی نسلیں صدیوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اور نہ معلوم آئندہ کتنی صدیوں تک اٹھاتا چلی جاےگي. کیا یہ ممکن ہیں کہ ایسے لوگو کی خدمات اور كھدمتو کا پورا بدلہ ان کو اسی دنیا میں مل سکے؟
کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ موجودہ جسمانی قانون کی حدود کے اندر ایک شخص اپنے اس عمل کا مکمل بدلہ حاصل کر سکتا ہے، جس کا اثر اس کے مرنے کے بعد ہزاروں سال تک اور بےشمار انسانوں تک پھیل گیا ہو؟
جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہیں، ایک تو دنیا کی موجودہ نظام جن قوانین پر چل رہی ہیں، ان کے اندر اتنی گنجائش ہی نہیں ہیں کہ انسانی اعمال کے اخلاقی نتائج پوری طرح نکل سکے. دوسرے يه چند سال کی زندگی میں انسان جو عمل کرتا ہے، اس کے اثر کا سلسلہ اتنا پھیلا ہوا ہوتا اور اتنی مددت تک جاری رہتا ہے کہ صرف اسی کے پورے نتائج حاصل کرنے کے لئے ہزاروں بلکہ لاکھوں سال کی زندگی چاہئے. اور قدرت کے موجودہ قوانین کے تحت انسان کو اتنی لمبی زندگی ملنی ناممکن ہیں. اس سے معلوم ہوا کہ انسانی وجود کے خاکی (پارتھیو)، اذوي (اوشيمبھاوي) اور هےواني (جیو) کے عناصر کے لئے تو موجودہ مادی کائنات (Physical world) اور اس کے جسمانی قانون کافی ہیں، لیکن اس کے اخلاقی عنصر کے لئے یہ دنیا بالکل ناکافی ہیں . اس کے لئے تو ایک دوسرے دنیا اہتمام ضروری ہے، جس میں سرکاری قانون (Governing law) اخلاق کا قانون ہو اور جسمانی قانون اس کے ماتحت صرف مددگار کی حیثیت سے کام کریں، جس سے زندگی محدود نہ ہو، بلکہ لامحدود ہو. جس میں وہ تمام اكھلاكي نتیجہ جو يه نہیں نکل سکے ہیں یا الٹے نکلے ہیں، آپ صحیح صورت میں پمري طرح سامنے آ سکے. جہاں پر سونے اور چدي کے بجائے نیکی اور سچچار میں ونج اور قیمت ہو. جہاں پر آگ صرف اس چیز کو جلائے جو اخلاقی اعتبار سے جلانے کے قابل ہو، جہاں پر راھ اور آرام اس کو ملے جو نیک اور بھلا ہو اور مصیبت اس کے حصے میں آئے جو برا ہو. عقل چاہتی ہیں اور فطرت مطالبہ کرتی ہیں کہ ایک ایسی دنیا کا نظام ضرور ہونی چاہئے.
جہاں پر تک اكلي دلیل اور منطق کا تعلق ہے، وہ ہم کو صرف، ” ہونا چاہئے ” کی حد تک لے جا کر چھوڑ دیتا ہیں. اب رہا یہ سوال کہ کیا واقعی میں كور ایسی دنیا ہیں بھی، تو ہماری عقل اور ہمارا دونوں اس کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں. يه قرآن ہماری مدد ملتی ہیں. وہ کہتا ہیں. وہ کہتا ہیں کہ تمہاری عقل اور تمہاری فطرت جس کا مطالبہ کرتی ہیں،
حقیقت میں وہ ہو کر رہے گی. موجودہ دنیا کا نظام جو کہ جسمانی كانونو پر بنی ہیں، ایک وقت میں توڑ ڈالا جائے گا. اس کے بعد ایک دوسری شریعت کا تعمیر کریں گے، جس میں زمین اور آسمان اور ساری چیزیں ایک دوسرے طریقے پر ہوگی. پھر اللہ تعالی تمام انسانوں کو تو شروع سے دنیا سے كيامت تک پیدا ہوئے تھے، دوبارہ پیدا کر دے گا اور ایک ساتھ ان سب کو اپنے سامنے جمع کرے گا. وه ایک ایک شخص کا، ایک ایک ذات کا اور پوری انسانیت کا ریکارڈ کسی غلطی اور اور کمی بیشی کے بغیر مستحکم کرے گا. ہر شخص کے ایک ایک عمل کا جتنا اثر دنیا میں ہوا ہیں، اس کی پوری تپھسيل موجود ہوگی. وہ تمام نسلیں گواہوں میں کھڑی ہوگی، جو اس اثر سے متاثر هر.
ایک ایک ذرہ (ذرہ) جس پر انسان کی باتوں اور كامو کے چهن قیمت ہوں گے اپنی داستان خود سنائے گا. خود انسان کے ہاتھ، پاو، كھ، کی زبان اور سارے گواہی دیں گے کہ ان سے اس نے کس طرح کام لیا. پھر اس تپھسيل اور تفصیلات پر وہ سب سے بڑا حاکم پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا کہ کون کتنے ثواب کے قابل ہیں اور کون کتنی سزا کا. اس کا اجروثواب اور یہ سزا دونوں چیزیں اتنے بڑے پیمانے پر ہوگی، جس کا كور اندازہ موجودہ دنیا کے محدود پیمانے کے لحاظ سے نہیں کیا جا سکتا. وه وقت اور جگہ کے مےار (پیمائش-سزا) کچھ اور ہوں گے. وه کی اقدار اور پیمائش کچھ اور ہوں گے. وه کے قدرت کا قانون کسی اور ہی قسم کے ہوں گے. انسان کی جن نیکیوں اور بھلائیوں سے دنیا ہزاروں سال تک متاثر رہی ہیں، وه وہ ان نیکیوں کا بھرپور بدلہ وسول کر سکے گا، بغیر اس کے کہ موت، بیماری، بڑھاپا اور اس راھ اور آرام کا سلسلہ توڑ سکیں. اور انسان کی جن براريو کے اثرات دنیا میں ہزار سال تک اور بےشمار انسانوں تک پھےستے رہ ہیں، وہ ان کی پوری سزا بھگتےگا بغیر اس کے کہ موت اور بیہوشی آ کر اسے تکلیف سے بچا سکے.
اس طرح ایک زندگی اور اس طرح ایک دنیا کو جو لوگ ناممکن سمجھتے ہیں، مجھے ان کے ذہن کی تنگی پر ترس آتا. اگر ہماری موجود دنیا کا نظام کی موجودہ قدرتی قوانین کے ساتھ موجود ہونا ممکن ہیں تو آخر ایک دوسری دنیا کا نظام کا دوسرے كانونو کے ساتھ وجود میں آنا کیوں ناممکن ہیں؟ ہاں یہ بات کہ سچ مچ ایسا ضرور ہوگا تو اس کا فیصلہ نہ دلیل سے ہو سکتا ہے اور نہ علمی ثبوت سے، اس کے لئے تو ‘ایمان بل گےب’ (بالواسطہ پر یقین) کی ضرورت ہیں.
*** اسلام، قرآن یا تازہ خبروں کے لیے مندرجہ ذیل کسی بھی سائٹ کلک کریں. شکریہ.
www.ieroworld.net
www.myzavia.com
www.taqwaislamicschool.com
Courtesy:
MyZavia
Taqwa Islamic School
Islamic Educational & Research Organization (IERO)
Author Name: سید ابو اعلی مودودی