Islami Poshak Pahanne Ke Baad Samman Mila – Sara Bokker
April 17, 2016Why I Shed Bikini for Niqab: The New Symbol of Women’s Liberation By Sara Bokker
April 18, 2016اسلامی لباس پہننے کے بعد مجھے لوگوں کے درمیان اتنا عزت اور احترام ملی جو مجھے آج سے پہلے کبھی نہیں ملی – سارہ بوككےر
پہلے میں مسلمان نہیں تھی، اس وجہ سے میں اس بات پر زور دینا چاہوں گی کہ پردہ کرکے ہر عورتوں کو اس سے خوشی اور عزت حاصل کرنے کا حق ہے، جیسا کہ میں نے یہ حاصل کیا. پہلے بکنی میری آزادی کی علامت تھی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بکنی نے مجھے روحانیت، سچے انسانی اقدار اور عزت سے دور کر دیا تھا. مجھے ساؤتھ درمیان مغربی خوبصورت طرز زندگی اور بیکنی چھوڑنے میں ذرا بھی ہچکچاتے محسوس نہیں ہوا کیونکہ اس سب کو چھوڑ کر اپنے رب کی چھاؤں میں سکون اور چےنپور زندگی جی رہی ہوں
اسلامی لباس میں میں اسی راستے سے گزرتے تھی جس پر کچھ دن پہلے میں نے شٹرس اور بیکنی پہن کر گزرا کرتی تھی. حالانکہ اس راستے میں لوگ، دکانیں، چہرے وہی تھےےےے لیکن ایک چیز جدا تھی اور وہ تھی مجھے ملنے والی عزت اور سکون. اس گلی میں جو چہرے میرے جسم کو شکار کے طور پر دیکھتے تھے، وہ اب مجھے نئے رویوں اور احترام کے ساتھ دیکھنے لگے. میں نے فیشن سوسائٹی کے اوپری دکھاوے کے فیشن کی زنجیروں کو توڑ دیا جو مجھے غلام بنائے ہوئے تھی. سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے احساس ہوا کہ گویا میرے کندھوں سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو. میرے اوپر دوسروں کے سامنے اچھا نظر کا دباؤ اور سوچ میرے ذہن سے نکل چکی تھی. بہت سے لوگ مجھے حیرت سے دیکھتے، رحم کی نظر سے اور کچھ تجسس سے
امریکہ کی سابق ماڈل، فلم اےكٹےرس، فٹنس اسٹرےكٹر سارا بوككےر
امریکہ کی سابق ماڈل، فلم اےكٹےرس، فٹنس اسٹرےكٹر سارا بوككےر نے اپنی عیش و آرام اور پرتعیش زندگی کو چھوڑ کر اسلام اپنا لیا. بکنی پہن کر خود کو مکمل طور آزاد کہنے والی سارا اب خود اسلامی لباس ‘حجاب’ پہنتی ہیں اور کہتی ہے کہ عورت کی سچی آزادی پردے (حجاب) میں ہے نہ کہ نصف – ادھورے کپڑے پہن کر اپنا جسم دکھانے میں
پڈھ़ے سارا بوككےر کی زبانی کہ کس طرح وہ اپنے وضع دار – باٹھ والی زندگی کو چھوڑ کر اسلام کی پناہ میں آئی
میں نے امریکہ کے هارٹلےڈ میں پیدا ہونے والی. اپنے ارد گرد میں نے عیسائی مذہب کے مختلف مسالک کو پایا. میں اپنے خاندان کے ساتھ بہت سے موقعوں پر لوتھےرين چرچ جاتی تھی. میری ماں نے مجھے چرچ جانے کے لئے کافی حوصلہ افزائی کی اور میں نے اس طرح لوتھےرين چرچ کی پکی پیروکار بن گئی. میں خدا پر مکمل یقین رکھتی تھی لیکن چرچ سے جڑے کئی رواج مجھے اٹپٹے لگتے تھے اور میرا ان باتوں پر اعتماد نہیں تھا جیسے کہ چرچ میں گانا، عیسی مسیح اور کراس کی تصاویر کی عبادت اور ‘عیسی کی باڈی اور خون’ کو کھانے کی روایت
آہستہ آہستہ میں امریکی طرز زندگی میں ڈھلتی گئی اور اور عام امریکی لڑکیوں کی طرح بڑے شہر میں رہنے، گلےمرس زندگی-اسٹائل، عیش و ارامپور زندگی پانے کی طلب مجھ بڑھتی گئی. خوبصورت طرز زندگی کی چاہت کے سبب ہی میں میامی کے ساؤتھ درمیان میں چلی گئی جو کہ فیشن کا گڑھ تھا. میں نے وہاں سمندر کے کنارے گھر لے لیا. اپنی توجہ خود کو خوبصورت شو پر مرکوز کرنے لگی. میں نے اپنے سودري کو بہت اہمیت دیتی تھی اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف چاہتی تھی. میری خواہش رہتی تھی کہ لوگ میری طرف متوجہ رہے. خود کو ظاہر کرنے کے لئے میں روز سمندر کنارے جاتی. اس طرح میں ہائی فائی زندگی اسٹائل اور فیشن زندگی جینے لگی
آہستہ آہستہ وقت گزر جاتا گیا لیکن مجھے احساس ہونے لگا کہ جیسے جیسے میں آپ femininity کے لیے پالش اور شو کیس میں آگے بڑھتی گئی، ویسے ویسے میری خوشی اور سکھ چین کا گراف نیچے آتا گیا. میں فیشن غلام بن کر رہ گئی تھی. میں اپنے خوبصورت چہرے غلام بن کر رہ گئی تھی. میری طرز زندگی اور خوشی کے درمیان گیپ بڑھتا ہی گیا. مجھے اپنی زندگی میں ھالیپن سا محسوس ہونے لگا. لگتا تھا بہت کچھ چھوٹ رہا ہے. گویا میرے دل میں سراكھ ہو. ھالیپن کی یہ چوبن میرے اںگ-عضو کو مایوس، مایوس اور دکھی برقرار رکھتی تھی. کسی بھی چیز سے میرا یہ ھالیپن اور تنہائی دور ہوتا نظر نہیں آتا تھا. اسی مایوسی اور چوبن کی وجہ میں نے شراب پینا شروع کر دیا. نشے کی لت کے چلتے میرا یہ ھالیپن اور مایوسی زیادہ ہی بڑھتے گئے. میری ان تمام عادات کے چلتے میرے ماں باپ نے مجھ سے فاصلے بنا لی. اب تو میں خود اپنے آپ سے فرار لگی
فٹنس انسٹركٹر وغیرہ کے کام میں مجھے جو کچھ پیسہ ملتا وہ یوںہی ہی خرچ ہو جاتا. میں نے کئی کریڈٹ کارڈ لے لئے، نتیجہ یہ نکلا کہ میں قرض میں ڈوب گئی. دراصل خود کو خوبصورت دکھانے پر میں خوب خرچ کرتی تھی. بال بنانے، ناخن سجانے، شاپنگ مال جانے اور جم جانے وغیرہ میں سب کچھ خرچ ہوگیا. اس وقت میری سوچ تھی کہ اگر میں نے لوگوں کی توجہ کا مرکز bangs کے تو مجھے خوشی ملے گی. لوگوں کے دیکھنے پر مجھے اچھا لگے گا. لیکن اس سب کا نتیجہ الٹا نکلا. اس سب کے چلتے میرے دکھ، مایوسی اور بے چینی کا گراف بڑھتا ہی گیا
ان سب حالات پر قابو پانے اور اس کا علاج تلاش کرنے کے لئے میں نے سالوں لگا دیئے. میں نے سکون حاصل کرنے کے لئے نفسیات، کتابوں اور ایکسرسائز وغیرہ کا بھی سہارا لیا. مجھے ان سے آپ کی زندگی کو صحیح طریقے سے شروع کرنے کی طاقت ملی. سکھ چین حاصل کرنے کے لئے میں نے مختلف مذاہب کا مطالعہ کرنا شروع کیا. روحانیت میں دلچسپی لینے لگی. میں نے توجہ اور یوگا کو بھی سمجھنے کی کوشش کی. میں اس طرف زیادہ ہی مصروف ہو گئی، میں چاہتی تھی کہ مجھے یہ واضح ہو جائے کہ مجھے کیا کرنا چاہئے اور کس طرح کرنا چاہئے. میں اپنی زندگی کے لئے ایک طریقہ اور اصول چاہتی تھی لیکن میں اس نام نہاد لبرل اور سوچچھدتاوادي ماحول میں یہ حاصل نہیں کر پائی.
اسی دوران امریکہ میں 9/11 دہشت گرد حملہ ہوا. اس واقعہ کے بعد اسلام پر آل راؤنڈ حملے ہونے لگے. اسلامی اقدار اور ثقافت پر سوال اٹھائے جانے لگے. تاہم اس وقت اسلام سے میرا دور دور تک کا واسطہ بھی نہ تھا. اسلام کو لے کر اس وقت میری سوچ تھی کہ جہاں عورتوں کو قید رکھا جاتا ہے، مارا پیٹا گیا ہے اور یہ دنیا بھر میں دہشت گردی کی وجہ ہے
اس درمیان میں بین الاقوامی تعلقات کا بھی مطالعہ کرنے لگی. امریکی تاریخ اور اس کی خارجہ پالیسی کا بدسورت حق کو بھی جانا. نسلی امتیاز اور ظلم کو دیکھ کر میں کانپ گئی. میرا دل ٹوٹ گیا. دنیا کے دکھوں نے مجھے دکھی بنا دیا. میں نے فیصلہ کیا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں لوگوں پر ہو رہے ظلم کے خلاف مجھو بھی کچھ کرنا چاہئے. میں نے انٹرنیٹ کے ذریعے ہائی اسکول اور کالج کے اسٹوڈنٹس کو مشرق وسطی کے لوگوں کے ساتھ کی جا رہی امریکی ناانصافی اور ظلم کے بارے میں معلومات دینے لگی
یہی نہیں میں مقامی كاريكترتاو کو ساتھ لے کر عراق کے خلاف ہونے جا رہے امریکی جنگ کے خلاف مظاہرے میں جٹ گئی. اپنے اسی مشن کے دوران میں ایک حیرت انگیز شخص سے ملی جو مسلمان تھا. وہ بھی عراق جنگ کے خلاف مظاہرہ میں لگا ہوا تھا. اس سے پہلے میں نے ایسے کسی شخص کو نہیں دیکھا جو اپنے مشن کے تئیں اس طرح جی جان سے مصروف ہو. وہ انصاف اور انسانی خود مختاری ملنے کے لئے ملازم تھا. اس شخص نے اس مشن کے لئے اپنی ایک ادارے بنا رکھی تھی. میں نے بھی اس ادارے سے جڑ گئی
اس کے ساتھ کام کرنے کے دوران میں نے اس سے اسلامی تہذیب، پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کے کئی قصے سنے. اس سے پہلے میں نے ان کے بارے میں ایسا کچھ نہیں سنا تھا. یہ سن کر میں دنگ رہ گئی. میں ان باتوں سے بے حد متاثر ہوا. میں اسلام سے متاثر ہو کر اس کا مطالعہ کرنے لگی اور میں نے قرآن بھی پڑھی. قرآن کے انداز اور سٹائل نے مجھو اپنی طرف کھینچا. میں نے محسوس کیا کہ قرآن انسان کے دل اور دماغ پر گہرائی سے اثر چھوڑتا ہے. دراصل جس حقیقت کی مجھے تلاش تھی وہ مجھو اسلام میں ملی
باوجود اس کے شروع میں اسلام کو لے کر میرے دل میں کچھ غلط فہمیاں تھیں جیسے میں سمجھ نہیں پائی تھی کہ آخر مسلم عورتیں پورا بدن ڈھکنے والی یہ مختلف طرح کے لباس کیوں پہنتی ہیں؟
میں سوچتی تھی کہ میں کبھی اس طرح کی کپڑے نہیں اپناوگي. اس وقت میری سوچ بنی ہوئی تھی کہ میں وہ ہوں جو سب کو نظر آتی ہوں، اگر دوسرے لوگ مجھے دیکھ ہی نہیں سکیں گے تو آخر میرا وجود ہی کہاں بچا؟
مجھے لگتا تھا خود کو دکھانا ہی میری شناخت اور بقا ہے. اگر دوسرے لوگ مجھے دیکھ ہی نہیں سکتے تو پھر میرا وجود ہی کہاں رہا؟
میں سوچتی تھی آخر وہ کیسی عورتیں ہیں جو صرف گھر میں رہے، بچوں کی دیکھ بھال کرے اور اپنے شوہر کو سنے. ایسی عورتوں کا آخر کیا موجود ہے؟
اگر وہ گھر کے باہر جاکر خود کی شناخت نہ بنائے تو آخر کیا زندگی ہوئی ایسی عورتوں کی؟
شوہر کی سواميبھكت بنے رہنے سے آخر کیا مطلب؟
میں نے عورتوں سے منسلک اپنے ان تمام سوالات کے جواب اسلام میں پائے. یہ جواب عقلی، سمجھ میں آنے والے اور اہم تھے. میں نے محسوس کیا کہ اسلام ایک مذہب ہی نہیں زندگی جینے کا طریقہ ہے. اس میں سب طرح کے انسانوں کے لئے ہر معاملے میں گائیڈ لائن ہے. زندگی سے جڑے ہر ایک پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے. چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی ہدایات ہے جےسےے-کھانا کس طرح کھانا چاہئے؟ سونا کس طرح چاہئے؟ وغیرہ وغیرہ
مجھے یہ سب کچھ حیرت انگیز لگا. یہ سب کچھ جاننے کے باوجود میں نے خود کو اسلام کے لیے وقف نہیں کیا. دراصل اسلام کے مطابق چل پانا مجھے مشکل لگ رہا تھا. اس میں ذمہ داری بہت تھی. میں فطرت کی طرف سے ایک ضد قسم کی لڑکی تھی اور ایسے میں خدا کے تئیں پوری طرح لگن میرے لئے مشکل تھا
جنوری 2003 کی بات ہے. سرد رات تھی. میں واشنگٹن ڈی سی سے انجام دے کر بس سے لوٹ رہی تھی. میں سوچنے لگی، میں نے زندگی کے کس طرح چوراہے پر کھڑی ہوں. میں نے اپنے کام سے نفرت کرتی ہوں، شوہر کو چھوڑ کر میں مختلف ہو گئی ہوں، مورچا کے خلاف لوگوں کو جمع کرتے کرتے میں بور گئی ہوں. میری عمر 29 سال تھی لیکن میرے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر میں کروں تو کیا کروں؟
میں مکمل طور ٹوٹ چکی تھی. میں رونے لگی اور اپنے آپ سے سوال کرنے لگی. میں نے ایک اچھی انسان بننا چاہتی ہوں اور اس دنیا کو بھی اچھا بنانے کی کوشش کرنا چاہتی ہوں لیکن سوچتی تھی آخر کیسے ہو یہ سب کچھ؟ آخر مجھے کرنا کیا چاہئے؟
مجھے اپنے اندر سے ہی اس کا جواب ملا ……….. مسلمان بن جاؤ. …….. یہی ہے کامیابی کا راستہ
میرے دل میں یہ جواب آتے ہی مجھے ایک الگ ہی طرح کے سکون اور چین کا احساس ہوا. میں خوشی اور جوش و خروش سے بھر گئی. گویا میرے اوپر امن کی چادر چھا گئی ہو. مجھے لگا مجھے اپنی زندگی کا مقصد مل گیا اور زندگی جینے کا سبب بھی. زندگی تو زندگی ہی ہے، یہ اتنی آسان بھی نہیں ہے لیکن میرے پاس تو جینے کے لئے اب رہنما کتاب قرآن مجید ہے
ایک ہفتے بعد ایک مسجد کی بنیاد لگانے کے لئے جمع ہوئے لوگوں کے سامنے میں نے کلمہ اے شہادت پڑھ کر اسلام اپنا لیا. میں نے قبول کیا کہ اللہ ایک ہی ہے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے قابل نہیں ہے اور محمد (ان پر امن ہو) اللہ کے بندے اور رسول ہیں. وہاں تمام مسلم بہنوں نے مجھے گلے لگایا. میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے
میں دوسرے دن بازار سے اسلامی لباس حجاب خرید لائی اور اسی دن سے میں نے اسلامی لباس پہننا شروع کر دیا
اسلامی لباس میں میں اسی راستے سے گزرتے تھی جس پر کچھ دن پہلے میں نے شٹرس اور بیکنی پہن کر گزرا کرتی تھی. حالانکہ اس راستے میں لوگ، دکانیں، چہرے وہی تھےےےے لیکن ایک چیز جدا تھی اور وہ تھی مجھے ملنے والی عزت اور سکون. اس گلی میں جو چہرے میرے جسم کو شکار کے طور پر دیکھتے تھے، وہ اب مجھے نئے رویوں اور احترام کے ساتھ دیکھنے لگے. میں نے فیشن سوسائٹی کے اوپری دکھاوے کے فیشن کی زنجیروں کو توڑ دیا جو مجھے غلام بنائے ہوئے تھی. سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے احساس ہوا کہ گویا میرے کندھوں سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو. میرے اوپر دوسروں کے سامنے اچھا نظر کا دباؤ اور سوچ میرے ذہن سے نکل چکی تھی. بہت سے لوگ مجھے حیرت سے دیکھتے، رحم کی نظر سے اور کچھ تجسس سے
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی لباس پہننے کے بعد مجھے لوگوں کے درمیان اتنا عزت اور احترام ملا جو مجھے آج سے پہلے کبھی نہیں ملا تھا. یہ تو اللہ ہی کا کرم تھا. جس کرشمائی مسلم شخص نے میرا اسلام سے تعارف کرایا تھا بعد میں میں نے اسی سے شادی کر لی
میرے اسلامی زندگی اپنانے کے تھوڑے ہی دنوں بعد خبریں آنے لگیں کہ کچھ سیاستدان اور مبینہ انسانی حقوق كاريكترتا برقع کی مخالفت کر اسلامی لباس خواتین کے دمن اور ان پر ظلم کا سبب بتانے لگے. مصر کے ایک افسر نے تو برقع کو مسلم عورتوں کی پسماندگی کی علامت تک بتا ڈالا. مجھے یہ سب نفاق نظر آنے لگا. میرے سمجھ میں نہیں آتا آخر مغربی ممالک کی حکومتیں اور انسانی حقوق کی تنظیم جب عورتوں کے تحفظ کے لئے آگے آتے ہیں تو ان پر ایک ڈریس کوڈ کیوں مسلط دیتے ہیں؟
مراکش، ٹيونسيا، مصر جیسے ممالک میں ہی نہیں بلکہ مغربی جمہوری کہے جانے والے ملک برطانیہ، پھرس، هلےڈ وغیرہ میں حجاب اور نقاب پہننے والی عورتوں کو تعلیم اور کام کرنے سے روک دیا جاتا ہے. میں خود خواتین کے حقوق کی حامی ہوں. میں مسلم خواتین سے کہتی ہوں کہ وہ اپنے شوہروں کو اچھے مسلمان بنانے کی ذمہ داری ادا کریں. وہ اپنے بچوں کی پرورش اس طرح کریں کہ بچے پوری انسانیت کے لئے روشنی کی مينارے بن جائے. ہر بھلائی سے جڑ کر بھلائی پھےلاے اور برائی سے روکیں. ہمیشہ سچ بولیں. الحق کے ساتھ آواز اٹھائیں اور برے کے سامنے آواز اٹھائیں
میں مسلم عورتوں سے کہتی ہوں کہ وہ مسلم لباس حجاب اور نقاب پہننے کا اپنا تجربہ دوسری عورتوں تک پہنچائیں. جن خواتین کو حجاب اور نقاب پہننے کا موقع کبھی نہ ملا ہو ان کو بتائیں کہ اس ہماری زندگی میں کیا اہمیت ہے اور ہم دل سے اسے کیوں پہنتی ہیں. ہم مسلم خواتین اپنی مرضی سے پردہ کرتی ہیں اور ہم اس كتتي چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہے
پہلے میں مسلمان نہیں تھی، اس وجہ سے میں اس بات پر زور دینا چاہوں گی کہ پردہ کرکے ہر عورتوں کو اس سے خوشی اور عزت حاصل کرنے کا حق ہے، جیسا کہ میں نے یہ حاصل کیا. پہلے بکنی میری آزادی کی علامت تھی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بکنی نے مجھے روحانیت، سچے انسانی اقدار اور عزت سے دور کر دیا تھا. مجھے ساؤتھ درمیان مغربی خوبصورت طرز زندگی اور بیکنی چھوڑنے میں ذرا بھی ہچکچاتے محسوس نہیں ہوا کیونکہ اس سب کو چھوڑ کر اپنے رب کی چھاؤں میں سکون اور چےنپور زندگی جی رہی ہوں
میں پردے کو بے حد پسند کرتی ہوں اور میرے پردہ کرنے کا حق کے لئے میں مرنے کو بھی تیار ہوں. آج پردہ عورتوں کی آزادی کی علامت ہے. وہ خواتین جو حیا اور حجاب کے خلاف بیہودہ اور بھونڈہ جوڑا پہنتی ہیں ان میں کہنا چاہوں گی کہ آپ کو احساس نہیں ہے کہ آپ کس اہم چیز سے محروم ہے
میں نے مشرق وسطی ممالک کا سفر کیا اور اس کے شوہر کے ساتھ امریکہ سے مصر شفٹ ہو گئی. میں اپنی ساس کے ساتھ یہاں اسلامی ماحول میں زندگی گجارتي ہوں. مجھے ایک خوبصورت خاندان مل گیا. اس خاندان سے بھی بڑے خاندان مسلم سوسائٹی کے خاندان کی میں رکن بن گئی. یہ مجھ پر اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ مجھے ایسی زندگی حاصل ہوئی. اب میرا دکھ، مایوسی، تنہائی غائب ہے
میں اب ایک سماجی فریم ورک کے تحت زندگی گزار رہی ہوں. میرے راہ پرردشن کے لئے قرآن کے طور پر کتاب ہے. میں محسوس کرتی ہوں کہ میں کسی کی ہوں. میرا وجود ہے. میرا ایک گھر ہے. میرا ھالیپن دور ہو گیا ہے اور دل کو کمال کا احساس ہے. مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ اس زندگی کے بعد دوسری زندگی (موت کے بعد کی زندگی) میں بھی کامیابی عطا کرے گا
سارا بكر ابھی ‘دی مارچ آف جسٹس’ کی كميونكےشن ڈائریکٹر ہیں اور گلوبل سسٹر نیٹ ورک کی بانی ہے
اسلام، قرآن یا تازہ خبروں کے لیے مندرجہ ذیل کسی بھی سائٹ کلک کریں. شکریہ
www.ieroworld.net
www.myzavia.com
www.taqwaislamicschool.com
Courtesy :
Taqwa Islamic School
Islamic Educational & Research Organization (IERO)
MyZavia