Ummul Mo’meneen Hadhrat Khadeejatul Kubra Radhi Allahu Ta’ala Anha

Being pleased with Allah’s Decree
January 24, 2016
Being The Best Neighbor
January 25, 2016

Ummul Mo’meneen Hadhrat Khadeejatul Kubra Radhi Allahu Ta’ala Anha

ام الموٴ منین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت خدیجہ کی عقیدت و محبت کی یہ کیفیت تھی کہ بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا انہوں نے ہمیشہ اسکی پرزور تائید و تصدیق کی۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم انکی بیحد تعریف و تحسین فرمایا کرتے تھ

Hazrat Khadijaخدیجہ نام، امّ ہند کنیت اور طاہرہ لقب ہے۔حضرت خدیجہ کے والد خویلد بن اسد ایک کامیاب تاجر تھے اور نہ صرف اپنے قبیلے میں بڑی باعظمت شخصیت کے مالک تھے بلکہ اپنی خوش معاملگی اور دیانداری کی بدولت تمام قریش میں بیحد ہر دلعزیز اور محترم تھے۔
حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا عام الفیل سے پندرہ سال قبل سنہ 555 عیسوی میں پیدا ہوئیں، بچپن ہی سے نہایت نیک اور شریف الطبع تھیں، جب سن شعور کو پہنچیں تو ان کی شادی ابو ہالہ بن نباش (زرارہ) تمیمی سے ہوئی ، ابو ہالہ سے ان کے دو لڑکے ہوئے، ایک کا نام ہالہ تھا جو زمانہ جاہلیت ہی میں مر گیا دوسرے کا نام ہند تھا، بعض روایتوں کے مطابق ان کو شرف صحابیت حاصل ہوا۔ ابو ہالہ کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی دوسری شادی عتیق بن عابد (یا عائد) مخزومی سے ہوئی، ان سے بھی ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ہند تھا۔ کچھ عرصہ بعد عتیق بن عابد بھی فوت ہو گئے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت خدیجہ کا تیسرا نکاح ان کے ان کے ابن عمّ صیفی بن امیّہ کے ساتھ ہوا اور ان کے انتقال کے بعد انہیں جناب رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کا شرف زوجیت حاصل ہوا۔ لیکن اکثر روایتوں میں ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تیسرا اور آخری نکاح جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی سے ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حبالہ زوجیت میں آنے سے پیشتر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنی بیوگی کے ایام خلوت گزینی میں گزار رہی تھیں، وہ اپنا کچھ وقت خانہ کعبہ میں گزارتیں اور کچھ وقت اس زمانہ کی معزّز کاہنہ عورتوں میں صرف کرتیں اور ان سے زمانہ کے انقلاب پر وقتاََ فوقتاََ بحث کیا کرتیں۔قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے انہیں نکاح کے پیگامات بھیجے لیکن انہوں نے سب رد کر دیئے کیونکہ پے درپے صدمات نے انکی طبیعت دنیا سے اچاٹ کر دی تھی۔ ادھر ان کے والد ضعف پیری کی وجہ سے اپنی وسیع تجارت کے انتظام سے عاجز آ گئے، نرینہ اولاد کوئی زندہ نہ تھی، تمام کام اپنی ذہین اور عاقلہ بیٹی کے سپرد کرکے خود گوشہ نشین ہو گئے اور کچھ عرصہ بعد ان کا انتقال ہو گیا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تمام کاروبار تجارت نہایت احسن طریقے سے جاری رکھا اس وقت ان کی تجارت ایک طرف شام میں پھیلی ہوئی تھی اور دوسری طرف اطراف یمن میں، اس وسیع کاروبار کو چلانے کیلئے انہوں نے ایک بڑا عملہ رکھا ہوا تھا جو متعدّد عرب، یہودی اور عیسائی ملازموں اور غلاموں پر مشتمل تھا۔ حسن تدبیر اور دیانت داری کی بدولت ان کی تجارت روز بروز ترقی کر رہی تھی اور اب انکی نظریں ایک ایسے شخص کی متلاشی تھیں جو بے حد قابل، ذہین، اور دیانتدار ہو، تاکہ وہ اپنے تمام ملازمین کو اسکی سرکردگی میں تجارتی قافلوں کے ساتھ بھیجا کریں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ اخلاق اور ستودہ صفات کا چرچا مکہ کے گھر گھر میں پھیل چکا تھا۔ اس وقت حضور کا عنفوان شباب تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری قوم میں امین کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے۔ یہ ناممکن تھا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے کانوں تک اس مقدس ہستی کے اوصاف کی بھنک نہ پڑتی، ان کو اپنی تجارت کی نگر انی کیلئے ایسی ہی ہمہ صفت موصوف شخص کی تلاش تھی۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ اگر آپ میرا سامان تجارت شام تک لیجایا کریں تو دوسرے لوگوں سے دوچند معاوضہ آپ کو دیا کرونگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں اپنے چچا کی سرپرستی میں تھے، انہیں وقتاََ فوقتاََ حضرت خدیجہ کی تجارت کا حال معلوم ہوتا رہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ کا پیغام منطور فرمالیا اور اشیائے تجارت لے کر عازم بْصریٰ ہوئے۔ چلتے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا غلام خاص میسر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کردیا اور اسے تاکید کی کہ اثنائے سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانتداری و سلیقہ شعاری کی بدولت تمام سامان تجارت دگنے منافع پر فروخت ہو گیا۔ دوران سفر میں سردار قافلہ یعنی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیا کہ ہر ایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مدّاح بلکہ جان نثار بن گیا۔جب قافلہ مکہ واپس آیا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو میسر کی زبانی سفر کے حالات اور منافع کی تفصیلات معلوم ہوئیں تو وہ بیحد متاثر ہوئیں اور اپنی خادمہ یا سہیلی نفیسہ کی معرفت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایما پا کر وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا عمرو بن اسد کو بلا لائیں، اس وقت وہی ان کے سرپرست تھے۔دوسری طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب اور دوسرے اکابر خاندان کے ساتھ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر تشریف لائے۔ جناب ابوطالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور 500 درہم طلائی مہر قرار پایا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارت 25 سال اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال تھی۔
نکاح کے بعد حضورصلی اللہ علیہ وسلم اکثر گھر سے باہر رہنے لگے۔ کئی کئی روز مکہ کے پہاڑوں پر جا کر عبادت الٰہی میں مشغول رہتے، غرض اسی طرح پندرہ برس کا زمانہ گزر گیا۔ ایک دن اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں معتکف تھے کہ ربّ ذوالجلال کے حکم سے جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہا : ” قْم یَا مْحَمَّد“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نظریں اٹھائیں تو اپنے سامنے ایک نورانی صورت کو کھڑے پایا۔ جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے سے لگا کر دبایا اور کہا پڑھ، حضور حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا لکھا نہیں، جبرائیل علیہ السلام نے پھر یہی کہا اور حضورصلی اللہ علیہ نے یہی جواب دیا ، تیسری مرتبہ جب جبرائیل علیہ السلام نے کہا
o ترجمہ: ” پڑھ اپنے پرو ردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا o جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا o پڑھ تیرا پروردگار بہت کرم والا ہے o جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا o جس نے انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا o۔
تو حضور صلی اللہ علیہ کی زبان پر یہی الفاظ جاری ہو گئے۔ اس حیرت انگیز واقعے سے حضور صلی اللہ علیہ کی طبیعت بیحد متاثر ہوئی۔ گھر تشریف لائے تو فرمایا” زَمِّلْونِی زَمِّلْونِی“ مجھے کپڑا اوڑھاوٴ مجھے کپڑا اوڑھاوٴ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تعمیل ارشاد کی اور پوچھا کہ آپ کہاں تھے میں سخت فکرمند تھی اور کئی آدمیوں کوآپ کی تلاش میں بھیج چکی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ نے تمام واقعہ بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سامنے من و عن بیان کردیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا آپ سچ بولتے ہیں، غریبوں کے دستگیر ہیں، مہمان نواز ہیں، صلہ رحم کا خیال رکھتے ہیں، امانت گزار ہیں اور دکھیوں کے خبر گیر ہیں۔ اللہ آپ صلی اللہ علیہ کو تنہا نہ چھوڑے گا۔“ پھرآپ صلی اللہ علیہ کو ساتھ لے کر اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس پہنچیں جو زمانہ جاہلیت میں بت پرستی چھوڑ کر عیسائی ہو گئے تھے اور گزشتہ الہامی کتابوں توریت اور انجیل کے بہت بڑے عالم تھے۔ بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تمام واقعہ جو حضور صلی اللہ علیہ کو پیش آیا تھا ان کے سامنے پیش کیا، ورقہ یہ سنتے ہی بول اٹھے
” یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا۔ اے کاش کے میں اس زمانے تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو وطن سے نکال دے گی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ” کیا یہ لوگ مجھ نکال دینگے؟“ ورقہ نے کہا: ” ہاں جو کچھ آپ پر نازل ہوا ہے جب کسی پر نازل ہوتا ہے تو دنیا اسکی مخالف ہو جاتی ہے، اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپ کی بھرپور مدد کروں گا۔
اس گفتگو کے بعد ورقہ کا بہت جلد انتقال ہو گیا۔ تاہم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو کامل یقین ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم منصب رسالت پر فائز ہو چکے ہیں۔ چنانچہ وہ بلا تامّل حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں۔ تمام کتب سیر متفق ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلے مشرّف بہ اسلام ہونے والی خاتون حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تقریباََ ۵۲ سال زندہ رہیں۔ اس مدت میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر قسم کے روح فرسا مصائب کو نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور جاں نثاری کا حق ادا کر دیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے اسلام لانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلقین میں بھی اسلام کی تڑپ پیدا ہوئی۔ نوجوانوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، بڑوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے ایمان لائے۔ ان کے بعد دوسرے سعید الفطرت اصحاب بھی آہستہ آہستہ اسلام میں داخل ہونے شروع ہو گئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اسلام کی وسعت پذیری سے بیحد مسّرت حاصل ہوتی تھی اور وہ اپنے غیر مسلم اعزّہ اور اقارب کے طعن و تشنیع کی پرواہ کئے بغیر اپنے آپ کو تبلیغ حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست و بازو ثابت کر رہی تھیں۔ انہوں نے اپنا تمام مال و زر اسلام پر لگا دیا اور اپنی ساری دولت یتیموں اور بیواوٴں کی خبر گیری، بیکسوں کی دستگیری اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کیلئے وقف کردی۔ ادھر کفار قریش نو مسلموں پر طرح طرح کے مظالم ڈھا رہے تھے اور تبلیغ حق کی راہ میں ہر طرح کے روڑے اٹکا رہے تھے انہوں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جان نثاروں کو ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کفار کی لایعنی اور بے ہودہ باتوں سے کبیدہ خاطر ہوتے تو خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا عرض کرتیں: ” یا رسول اللہ:آپ رنجیدہ نہ ہوں ، بھلا کوئی ایسا رسول بھی آج تک آیا ہے جس سے لوگوں نے تمسّخر نہ کیا ہو۔“ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کہ اس کہنے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ملال طبع دور ہو جاتا تھا۔ اس پر آشوب زمانے میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم خیال اور غمگسار تھیں بلکہ ہر موقع پر اور ہر مصیبت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کیلئے تیار رہتی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے
میں جب کفار سے کوئی بات سنتا تھا اور وہ مجھ کو ناگوار معلوم ہوتی تھی تو میں خدیجہ سے کہتا، وہ اس طرح میری ڈھارس بندھاتی تھیں کہ میرے دل کو تسکین ہو جاتی تھی اور کوئی ایسا رنج ایسا نہ تھا جو خدیجہ رضی اللہ عنہا کی باتوں سے آسان اور ہلکا نہ ہوجاتا تھا۔
عفیف کندی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں زمانہ جاہلیت میں کچھ اشیاء خریدنے کیلئے مکہ آیا اور عباس بن عبدالمطّلب کے پاس ٹہرا۔ دوسرے دن جب صبح کے وقت عباس کے ہمراہ بازار کی طرف چلا۔ جب کعبہ کے پاس سے گزرا تو میں نے دیکھا ایک نوجوان شخص آیا، اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر دیکھا پھر قبلہ کی طرف منہ کرے کھڑا ہو گیا، تھوڑی دیر بعد ایک نوخیز لڑکا آیا جو پہلے جوان کی ایک جانب کھڑا ہوگیا، زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ ایک عورت آئی اور وہ بھی ان دونوں کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ ان تینوں نے نماز پڑھی اور چلے گئے۔میں نے عباس سے کہا ” عباس ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں انقلاب آنے والا ہے؟“ عباس نے کہا : ” ہاں تم جانتے ہو یہ تینوں کون ہیں؟“ میں نے کہا: ” نہیں“۔ عباس نے کہا: ” یہ جوان اور لڑکا دونوں میرے بھتیجے تھے، جوان عبداللہ بن مطّلب کا بیٹا محمّد اور لڑکا ابو طالب بن عبد المطّلب کا بیٹا علی تھا۔ عورت جس نے دونوں کے پیچھے نماز پڑھی، میرے بھتیجے محمّد کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہے۔ میرے بھتیجے کا دعویٰ ہے کہ اس کا دین الہامی ہے اور وہ ہر کام خدا کے حکم سے کرتا ہے لیکن ابھی تک ان تینوں کے سوا اس دین کا کوئی پیرو میرے علم میں نہیں ہے۔“ عباس کی یہ باتیں سن کر میرے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ اے کاش چوتھا میں ہوتا۔
اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کیسے نامساعد حالات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یہی ہمدردی، دلسوزی اور جاں نثاری تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ جب تک وہ زندہ رہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی دوسرا نکاح نہ فرمایا۔ حضرت خدیجہ جہاں اولاد کی پرورش نہایت حسن و خوبی سے کر رہی تھیں وہاں امور خانہ داری بھی نہایت سلیقے سے نبھاتی تھیں اور باوجود تموّل و ثروت کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت خود کرتی تھیں۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہا: ” خدیجہ برتن میں کچھ لا رہی ہیں آپ ان کو اللہ کا اور میرا سلام پہنچا دیجئے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت خدیجہ کی عقیدت و محبت کی یہ کیفیت تھی کہ بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا انہوں نے ہمیشہ اسکی پرزور تائید و تصدیق کی۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم انکی بیحد تعریف و تحسین فرمایا کرتے تھے۔ سنہ ۷ بعد بعثت میں مشرکین قریش نے بنو ہاشم اور بنو مطّلب کو شِعب ابی طالب میں محصور کیا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی اس ابتلا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں۔ وہ پورے تین برس تک اس محصوری کے روح فرسا آلام اور مصائب بڑے حوصلے اور صبر کے ساتھ جھیلتی رہیں۔
سنہ ۰۱ بعد بعثت میں یہ ظالمانہ محاصرہ ختم ہوا لیکن اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا زیادہ عرصہ حیات نہ رہیں۔ رمضان المبارک میں (یا اس سے کچھ پہلے) ان کی طبیعت ناساز ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج معالجہ اور تسکین و تشفّی میں کوئی وقیقہ اٹھا نہ رکھا لیکن موت کا کوئی علاج نہیں۔ ۱۱ رمضان سنہ ۰۱ نبوّی کو انہوں نے پیک اجل کو لبّیک کہا اور مکہ کے قبرستان میں حجون میں دفن ہوئیں۔ اس وقت ان کی عمر تقریباََ ۵۶ برس کی تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات کا بے پناہ صدمہ ہوا اور آپ اکثر ملول رہنے لگے تا آنکہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے آپ کا نکاح ہو گیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے اتنی محبت تھی کہ جب قربانی کرتے تو پہلے حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کو گوشت بھیجتے اور بعد میں کسی اور کو دیتے۔ حضرت خدیجہ کا کوئی رشتہ دار جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تو آپ اس کی بے حد خاطر مدارات فرمایا کرتے۔رحلت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بعد مدّت تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک گھر سے تشریف نہ لیجاتے جب تک حضرت خدیجہ کی اچھی طرح تعریف نہ کر لیتے۔ اس طرح جب گھر تشریف لاتے ان کا ذکر کرکے بہت کچھ تعریف فرماتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب معمول حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تعریف کرنی شروع کی مجھے رشک آیا میں نے کہا: ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ ایک بڑھیا بیوہ عورت تھیں اللہ نے ان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بہتر بیوی عطا کی۔“ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک غصہ سے سرخ ہو گیا اور فرمایا:
اللہ کی قسم مجھے خدیجہ سے اچھی بیوی نہیں ملی، وہ ایمان لائیں جب سب لوگ کافر تھے، اس نے مری تصدیق کی جب سب نے مجھے جھٹلایا، اس نے اپنا زرومال مجھ پر قربان کر دیا، جب دوسروں نے مجھے محروم رکھا، اور اللہ نے مجھے اس کے بطن سے اولاد دی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ڈر گئی اور اس روز سے عہد کر لیا کہ آئندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کبھی خدیجہ الکبریٰ کو ایسا ویسا نہیں کہوں گی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چھی اولادیں دین۔ سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے جو کمسنی میں انتقال کر گئے۔ پھر زینب رضی اللہ عنہا، ان کے بعد عبداللہ، وہ بھی صغر سنی میں فوت ہو گئے ( ان کا لقب طیّب اور طاہر تھا)۔ پھر رقیّہ، پھر امّ کلثوم پھر فاطمہ الزّھرا رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے مناقب میں بہت سی احادیث مروی ہیں۔

Courtesy :
www.ieroworld.net
www.taqwaislamicschool.com
Taqwa Islamic School
Islamic Educational & Research Organization ( IERO ) 

Leave a Reply